495

حکومت، کسٹم ایکٹ اورعوام۔۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

گزشتہ روزصوبائی دارالحکومت پشاور سے شائع ہونے والے ایک مؤقر اخبار میں ایک خبرزیر نظرآئی جو ملاکنڈڈویژن میں کسٹم ایکٹ کے نفاذ سے متعلق تھی جسے پڑھ کریوں محسوس ہواجیسے ایک ہی کمرے میں گرمی اور سردی کے الگ الگ موسم ہوں کیونکہ خبرمذکورہ کے متن کے مطابق تحریک انصاف ملاکنڈڈویژن میں نافذہونے والے کسٹم ایکٹ کے معاملے پر جماعت اسلامی کوقائل نہیں کرسکی مگر ساتھ ہی لکھاتھاکہ صوبائی حکومت کی جانب سے کسٹم ایکٹ کے خاتمے کے لئے وفاقی حکومت کوبھیجے گئے مراسلے پرجماعت اسلامی نے اطمینان کااظہارکیاہے مزید یہ کہ جماعت اسلامی خیبرپختونخواکے امیرمشتاق احمد خان نے کہاہے کہ کسٹم ایکٹ نافذکرکے ملاکنڈ کے عوام کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے کیونکہ ملاکنڈ ڈویژن مسلسل حالت جنگ اور قدرتی آفات کی زد میں ہے لہٰذا وفاقی حکومت ٹیکس کے نفاذکی بجائے وہاں کے عوام کی دادرسی کے لئے پانچ سوارب کے پیکیج کااعلان کرے،کسٹم ایکٹ صوبائی حکومت کے مراسلہ کی بنیادپر لگایا گیاہے تاہم اب صوبائی حکومت نے اس کے خاتمے کے لئے وفاقی حکومت کوخط لکھ دیاہے۔ یہ کیابات ہوئی اگرکسٹم ایکٹ کے ا یشوپر جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے مابین کوئی اختلاف ہے توپھروفاقی حکومت کو بھیجے گئے مراسلے پر جماعت اسلامی کو اطمینان کیسا ؟اوراگرجماعت اسلامی نے واقعی کسٹم ایکٹ کے خاتمہ کے لئے صوبائی حکومت کی جانب سے بھیجے گئے مراسلے پر اطمینان ظاہرکیاہے توپھر اس ایشوپر دونوں حلیف جماعتوں کے مابین اختلاف یاکسی ایک کا دوسرے کو قائل کرنے کاجوازکیا بنتا ہے جبکہ اٹھتے کئی سوالات کے تناظرمیں ہوناتویہ چاہئے تھاکہ جماعت اسلامی اس معاملے پر کھل کرسامنے آتی اور شدید ردعمل دیتی کہ صوبائی حکومت نے کسٹم ایکٹ کے نفاذکے لئے وفاقی حکومت کومراسلہ بھیجاکیوں تھاکیونکہ نہ صوبائی حکومت مراسلہ بھیجتی نہ وفاقی حکومت اسے بنیادبناکریہ ایکٹ نافذکرتی اورنہ ہی اس اقدام کے ردعمل میںیہ نوبت پیش آتی کہ ملاکنڈڈویژن کے عوام سر جوڑکر بیٹھتے اور احتجاج کے لئے تدابیر اختیارکرتے۔دوسری جانب اگرچہ صوبائی حکومت کے مبینہ مراسلہ کی روشنی میں جب وفاقی حکومت نے یہاں کسٹم ایکٹ کے نفاذکااعلان کیاتب یہاں کی سیاسی جماعتیں اور تاجر تنظیمیں احتجاج پراترآئی تھیں جس کے تحت ڈویژن بھرمیں تسلسل کے ساتھ جلسے،جلوس اور شٹرڈاؤں ہڑتالیں ہوتی رہیں جبکہ اے این پی نے چکدرہ میں ایک اَل پارٹیزکانفرنس بھی بلائی تھی جس میں ڈویژن بھر کے منتخب سابق وموجودہ ممبران قومی و صوبائی اسمبلی،سینیٹرز،منتخب ناظمین،سیاسی جماعتوں کے عہدیداراورٹریڈیونین کے قائدین شریک تھے اوریہ ایک غیر معمولی کاوش تھی جس پر اے این پی کوکافی عوامی پذیرائی بھی ملی تاہم انہی سرگرمیوں کی روشنی میں اس ایشو پر سامنے آنے والے شدیدعوامی دباؤ کے نتیجے میں صوبائی حکومت اس ایکٹ کے نفاذ کافیصلہ واپس لینے کے لئے وفاق کو سمری بھجوانے پر مجبورہوئی اورساتھ ہی قوم کو دلاسہ دلایاگیا کہ صوبائی حکومت کی درخواست پروفاق یہ فیصلہ واپس لے لے گا۔ صوبائی حکومت کے اس اعلان پر یہاں کے عوام نے قدرے سکھ کاسانس لیااور امید کرنے لگے کہ ایساہی ہوگااسی دوران وزیراعظم کے دورہ ملاکنڈ کے حوالے سے سوات آمدبھی متوقع تھی اوربازگشت یہ ہورہی تھی کہ وزیراعظم اس موقع پراس ایکٹ کو واپس لینے کااعلان کریں گے سو امیدوں اور توقعات پر مبنی انہی عوا مل کے پیش نظرعوام، تاجربرادری اور سیاسی جماعتوں کی احتجاجی تحریک قدرے ماند پڑگئی تھی۔ گوکہ وزیراعظم نے دورہ سوات کے موقع پراس ایشوپر لب کشائی کرنے سے گرہیزکیا جس سے یہاں کے عوام کوسخت مایوسی ہوئی اور اس پر سیخ پاہوکر سیاسی جماعتیں اور تاجرتنظیمیں عیدکے بعد احتجاج کے لئے ازسرنوصف بندی کا پلان ترتیب دے رہی تھیں مگر گزشتہ دنوں چکدرہ پریس کلب کے صدر اور خیبر پختونخواکے ایک کثیرالاشاعت اخبارکے بیورو چیف شاہ فیصل افغانی نے ایک خبربریک کی کہ تحصیل آدینزئی کے علاقہ اسبنڑکی پولیس کامختلف دفعات میں درج کردہ ایک مقدمہ جس میں ایک نان کسٹم پیڈ گاڑی بھی تحویل میں لی گئی تھی گاڑی کے مالک حسین گل ولد ہمیش گل جوکہ بامبولئی اسبنڑکارہائشی بتایاجاتا ہے نے اپنی گاڑی کے حصول کے لئے چکدرہ کی مقامی عدالت میں درخواست دی تھی تاہم عدالت نے سائل کی درخواست اس بنیادپر مسترد کرلی تھی کہ یہاں کسٹم ایکٹ نافذ ہوچکاہے اور ریکارڈپر موجودثبوتوں کے مطابق پولیس نے جوگاڑی تحویل میں لی ہے وہ نان کسٹم پیڈہے۔مذکورہ خبر کی اشاعت سے یہاں کی سیاسی جماعتوں اورتاجرتنظیموں کو ایساجھٹکالگاکہ وہ ماہ رمضان کے اختتام کاانتظارنہ کرسکے اورفوراََ حرکت میںآکر 19جون کوچکدرہ میں اے این پی کے رہنماء اور سابق صوبائی وزیرواجدعلی خان کی صدارت میں اینٹی کسٹم ایکٹ کے ڈویژنل ایکشن کمیٹی کا پہلااجلاس بلایاجس میں کمیٹی کے ممبران پی ٹی آئی کے ایم پی اے ڈاکٹر حیدرعلی خان،جماعت اسلامی کے سابق ایم این اے مولانااسداللہ،قومی وطن پارٹی کے فضل رحمان نونو،پختونخوامیپ کے خورشید کاکاجی، جے یو آئی کے قاری محمود،پیپلزپارٹی کے شمشیرعلی خان ایڈووکیٹ،اے این پی کے اعجازخان ،تاجررہنماء حاجی شاکراللہ اور ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر زاہد خان سمیت کئی دیگر اہم سیاسی رہنماء اور پارلیمنٹیرینز جن میں سابق صوبائی وزیرشاہ رازخان اور سابق تحصیل ناظم سلطنت یارایڈووکیٹ قابل ذکر تھے نے شرکت کی۔مذکورہ اجلاس کے اختتام پر جو متفقہ اعلامیہ جاری کیاگیااس کے مطابق ملاکنڈ ڈویژن ایک پسماندہ علاقہ ہے جودہشت گردی کے خلاف آپریشن سمیت زلزلہ اورسیلاب جیسے قدرتی آفات کی زد میں رہاہے جس کی بناء پر یہ علاقہ کسٹم ایکٹ کے نفاذکامتحمل نہیں ہوسکتایہ بیوروکریسی کاکیادھرااورعوام دشمن پالیسی ہے جسے یہاں کے عوام مسترد کرتے ہیں۔اعلامیے میں کہاگیاہے کہ کسٹم کے دفاتراورعملہ کی رہائش کے لئے یہاں کے عوام اپنی پراپرٹی کرایہ پر نہیں دیں گے بصورت دیگروہ شدیدعوامی مزاحمت کاسامناکریں گے جبکہ عید کے بعد مکمل شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتالوں کی صورت میں احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی جو کسٹم ایکٹ کی واپسی تک جاری رہے گی۔دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے البتہ اس وقت نظرآتے زمینی حقائق یہ ہیں کہ ملاکنڈ ڈویژن میں کسٹم ایکٹ عملاََ نافذہوچکاہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں