93

ٹی بی یا تپ دق دراصل زیادہ تر غریب، پسماندہ علاقوں میں پائی جانے والی متعدی بیماری تصور کی جاتی ہے جومتاثرہ افراد کے کھانسنے اور چھینکنے سے دیگر انسانوں میں منتقل ہوجاتی ہے /ڈاکٹرفیاض رومی /ڈاکٹرشبیراحمد

چترال (ڈیلی چترال نیوز)تپ دق جسے عام زبان میں ٹی بی کے نام سے جاناجاتاہے کے عالمی دن کے مناسبت سے ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹرہسپتال ضلع لوئرچترال میں ضلعی ٹی بی کنٹرول پروگرام اورایسوسی ایشن فارکمیونٹی ڈیویلپمنٹ (اے سی ڈی)کے زیرانتظام ایک آگاہی سمیناراوراُس کے بعدعوام میں ٹی بی کے بارے میں معلومات پہنچانے کے لئےآگاہی واک منعقدکی گئی۔جس میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرلوئرچترال ڈاکٹرفیاض رومی،ہیڈ ڈینٹل سیشن ڈی ایچ کیوہسپتال چترال ڈاکٹراقبال الدین ،ڈسٹرکٹ ٹی بی کنٹرول پروگرام آفیسر لوئرچترال ڈاکٹرشبیراحمد،،ڈسٹرکٹ کواڈینٹرایل ایچ ڈبلیولوئرچترال ڈاکٹرسلیم سیف اللہ ، ڈسٹرکٹ فیلڈ آفیسراے سی ڈی چترال مصطفی کمال ،نرسرز،پیرامیڈیکل اسٹاف اورمختلف طبقہ فکرکے لوگوں نے شرکت کی ۔
ڈسٹرکٹ ٹی بی کنٹرول پروگرام آفیسر لوئرچترال ڈاکٹرشبیراحمد نے کہاکہ دویادوہفتوں سے زیادہ کھانسی ،ہلکابخار،رات کوپسینہ آنا،بھوک کانہ لگنا،اوروزن میں کمی اس ٹی بی کی علامات ہے ۔اگرکسی میں یہ علامات ظاہرہوں تواس صورت میں وہ اس بیماری کی تشخیض کے لئے بلغم کامفت معائنہ سرکاری لیبارٹری سے کرواکراوراپنامعائنہ ٹی بی کے تربیت یافتہ اورمستندڈاکٹرسے کروائیں۔اورٹی بی کامرض ثابت ہوجائے تواس صورت میں مسلسل چھ ماہ تک بلاناغہ علاج کرواکرٹی بی سے مکمل نجات پاسکتاہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان میں تپ دق کے علاج، ٹیسٹ اور مفت ادویات کی فراہمی کے باوجود تپ دق کے بہت سے مریض اپنا علاج نہیں کرواتے یا زیر علاج مریض اپنا کورس مکمل نہیں کر پاتے ، جس کے نتیجے میں وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ٹی بی کے روک تھام حکومت خیبرپختونخوا کی ترجیحات میں شامل ہے ۔اورموجودہ صوبائی حکومت اس وباپرقابوپانے کے لئے تمام وسائل کوبروئے کارلانے کے لئے پرعزم ہے تاکہ ٹی بی کی وجہ سے ہمارے خاندان ،برادریوں اورپورے قوم پرپڑنے والے معاشرتی ومعاشی بوجھ کوکم کیاجاسکے۔انہو ں نے بتایاکہ صوبائی محکمہ صحت نے قلیل وسائل کے باوجود ٹی بی کی روک تھام کے لئے ترجیحی بنیادوں پراقدامات کئے ہیں جس سے صوبائی حکومت کے عزم اورجدوجہدکااندازہ لگایاجاسکتاہے۔انہوں نے مزیدکہاکہ حکومتی سرپرستی کے ساتھ ساتھ معیاری ادوایات کی ترسیل ،محکمہ صحت کے عملے ،نجی شراکتی اداروں اورمعاشرے کے تمام افرادکواپنااپناکرداراداکرناہوگا۔جس کے لئے سرکاری ونجی مراکزصحت کے درمیان باہمی شراکت وہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تاکہ ٹی بی جیسے مہلک بیماری سے مربوط اندازمیں نمٹاجاسکے۔
تقریب کے مہمان خصوصی ڈی ایچ اولوئرچترال ڈاکٹرفیاض علی رومی،ڈسٹرکٹ فیلڈآفیسراے سی ڈی مصطفیٰ کمال اوردوسروں نے کہاکہ ٹی بی کے خلاف جنگ اس وقت تک نہیں جیت سکتے جب تک کہ پوری کمیونٹی پرعزم طریقے سے اس میں شامل نہ ہو جائے۔پاکستان میں ہر سال تقریباً پانچ لاکھ افراد تپ دق کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ مرض زیادہ تر پسماندہ علاقوں کے رہنے والوں میں زیادہ پایا جاتا ہے جہاں غربت، بھوک، افلاس، آلودہ ماحول اور صحت کی بنیادی سہولتوں کی کمی پائی جاتی ہے۔ تپ دق یا ٹی بی ان انسانوں میں بھی زیادہ پائی گئی ہے جن کا مدافعتی نظام کمزور ہو۔ بدقسمتی سے دنیا کے کسی بھی ملک میں ابھی تک اس مہلک بیماری کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا۔ لوئرچترال کے یوسی ارندو،شیشی کوہ دیگرپسماندہ علاقوں میں ٹی بی کی شرح زیادہ ہے جوغورطلب ہے۔ انہوں نے کہاکہ تپ دق ایک قدیم ترین بیماری ہے جو کئی دہائیوں سے صحت عامہ کا ایک اہم مسئلہ بنی ہوئی ہے ۔ ٹی بی یا تپ دق دراصل زیادہ تر غریب، پسماندہ علاقوں میں پائی جانے والی متعدی بیماری تصور کی جاتی ہے جومتاثرہ افراد کے کھانسنے اور چھینکنے سے دیگر انسانوں میں منتقل ہوجاتی ہے۔ٹی بی ایک قابل علاج مرض ہے ۔ اگر ادویات پابندی سے لی جائیں اور مثبت سوچ کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا جائے تو اس مرض سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں